کسی کو میرا خیال رہا ہے اب تک
میں گر رہا ہوں وہ سنبھال رہا ہے اب تک
میں وہ جواب کہ جس کا وہ منتظر ہی نہیں
میری ہستی پہ وہ سوال رہا ہے اب تک
میرے تخیل میں تیری یاد کے خزانے ہیں
میری ڈائری میں تیرا بال رہا ہے اب تک
وہ ایک برس کہ جس میں ملے تھے ہم اور تم
میری ہر شب میں وہی سال رہا ہے اب تک
یہ اس کا ظرف کہ مجھ کو عطا کیا سب کچھ
مجھ سے حقیر کو جو پال رہا ہے اب تک
یہ کس کی فکر کہ تمہیں اپنی بھی ذرا فکر نہیں
بکھرے بال رنگ آنکھوں کا لال رہا ہے اب تک
اب بھی سانسیں کاشی سرسوں سے مہک اٹھتی ہیں
میرے وجود میں ناروال رہا ہے اب تک