کسی کو ہنسا کر کسی کو رلا کر چل پڑے
سپنے عجب محبت کے دکھا کر چل پڑے
ہم نے پوچھی جو بےرخی کی وجہ ان سے
پاس آئے تھوڑا مسکرا کر چل پڑے
قصور اتنا تھا کہ ہم نے محبت کی تھی
صلہ یہ تھا کہ مجھے ٹھکرا کر چل پڑے
پل بھر کی اگر ہوتی محبت تو گلا نہیں کرتے
میری برسوں کی رفاقت کو بھلا کر چل پڑے