جا بجا کِس کو ڈھونڈتی ہے نظر یاد کرو
کوئی نقشہ کوئی منظر کوئی در یاد کرو
عین ممکن ہے طبیعت کی تشنگی کم ہو
نگاہِ یار مثلِ آب و ابر یاد کرو
زرا سکون سے صحنِ دماغ پر اُترو
اورماضی کے حسیں شام وسحریادکرو
جو ہر لمحہ تر و تازہ مہکتا رہتا
وہ گھر تھاخوشبووں کاایک نگریادکرو
شگافِ دل کو مِلانے کا ہے علاج یہی
کسی کی زُلف رات ، چہرہ قمر یاد کرو
قریب ہے گوہر دل کا سُراغ مِل جائے
وہاں آباد تھا اک پورا شہر یاد کرو