میں سوچوں کے بھنور سے جس گھڑی یارو نکلتی ہوں
جو بیتا دل پہ میرے غزل کی صورت وہ لکھتی ہوں
مجھے دیوانی کا مل گیا تمغہ حسیں کیونکہ
میں رنج و غم میں اکثر شعر کہہ کر ہی بہلتی ہوں
سہرابِ زندگی دل کو میرے سیراب رکھتے ہیں
غزل بن کر تبھی قرطاس پر تنہا تھرکتی ہوں
کسی کی یاد کی شمع کئی سالوں سے روشن ہے
میں اس کی روشنی کو اوڑھ کر اکثر سنورتی ہوں
محبت کیا ہے کیسی ہے نہیں معلوم یہ وشمہ
مگر میں دل کے آنگن میں نجانے کیوں مچلتی ہوں