کل تک وہ لوگ جو کہ مرے ہمرکاب تھے
دیکھا پلٹ کے جب تو لگا ایک خواب تھے
اذنِ سفر ملا ہے بڑی دیر سے ہمیں
ورنہ تو ہم ازل سے ہی پابہ رکاب تھے
قلب و دماغ میں جو کبھی جنگ چھڑ گئی
وہ مرحلے ہمارے لئے اک عذاب تھے
پستی میں یوں گرے کہ اندھیروں نے ڈس لئے
وہ لوگ کل ہمارے لئے آفتاب تھے
تقدیر کی ہے بات کہ کانٹے ملے ہمیں
گلشن میں یوں تو سینکڑوں تازہ گلاب تھے
تعبیر میں ملی ہیں یہ تنہائیاں ہمیں
جو تیرے ساتھ بیت گئے دن وہ خواب تھے
بن کر گذر گئے ہیں وہ جاڑے کی چاندنی
ماضی کے سارے پل جو بہت پر شباب تھے