کل تک جس کی تلاش میں در در پھری
وہ تو میرے جسم کا سایہ نکلا
اک میں ھوں جسکو ھے اپنی تلاش
پر حصار یار توں صحرا نکلا
کون اس عہد میں اب کیا کس سے محبت کرئے
جس کو دیکھوں وہ اسیر غم نکلے
خود کو کیا آگہی کہے نظروں کا فریب
میں سمندر سمجھی وہ تو بوند نکلا