گھر تو جانا ہے مگر کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
اپنے خوابوں کا سفر کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
آج دکھلا دو کہ مرتے ہیں نظر سے کیسے
زندہ کرنے کا ہنر کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
سامنے تم ہو میرے آج تمہیں دیکھیں گے
دیکھنا حسن قمر کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
آج ہے عید چلو آج گلے ملتے ہیں
قصہء حرف دگر کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
تم نے جو زخم دیئے دل کے دکھا دیتا ہوں
پرستش داغ جگر کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
آج کی شب تیری خلوت میں بسر کرنے دے
کل کہاں ہوگی بسر کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
ہنر مندوں نے میرے لفظ کو شک سے دیکھا
اپنے شعردں کا اثر کل پہ اٹھا رکھتے ہیں