کل کی طرح آج بھی اکيلا ہوں
ہوا کے سہمے ہوۓ جھونکھے
دبے پاؤں اترتے اور
چپ چاپ گزر جاتے ہيں
ميرے مجروح جزبوں پہ
دلاسوں کے پھاہے رکھے
ميرے ہونے کا احساس دلاۓ مجھکو
مرہم نہ سہی نشتر ہی لگاۓ مجھکو
لفظوں کا آئينہ اور پتھر ہے سامنے
حرف کی روشنی نے اندھيرا کر ديا ہے
گۓ دنوں کے اندھيرے ميں صرف اندھيرا ہے
سچ کيا تھا کب کہا کون ياد رکھتا ہے
ميرا سب کچھ ماضی کے پاس گروی ہے
وقت بدلے تو موسم بھی بدل جاتے ہيں
ہم تو اب بارش ميں بھی جل جاتے ہيں
گزرے ہوۓ سالوں پہ نظر ڈالوں تو
مانوس جن سے تھی آنکھيں ان ميں
اجنبی چہروں کے خدوخال نظر آتے ہيں