کلی پر مسکراہٹ آج بھی معلوم ہوتی ہے
Poet: شفیق جونپوری By: راحیل علی, Karachiکلی پر مسکراہٹ آج بھی معلوم ہوتی ہے
مگر بیمار ہونٹوں پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
اسیری کی خوشی کس کو خوشی معلوم ہوتی ہے
چراغاں ہو رہا ہے تیرگی معلوم ہوتی ہے
بظاہر روئے گل پر تازگی معلوم ہوتی ہے
مگر برباد چہرے کی خوشی معلوم ہوتی ہے
نسیم صبح تو کیا سونے والوں کو جگائے گی
ابھی تو صبح خود سوئی ہوئی معلوم ہوتی ہے
چمن کا لطف کھوتا ہے چمن میں اجنبی ہونا
خزاں بھی اپنے گلشن کی بھلی معلوم ہوتی ہے
تجھے ہم دوپہر کی دھوپ میں دیکھیں گے اے غنچے
ابھی شبنم کے رونے پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
چلیں گرم آندھیاں سورج بھی چمکا خاک مقتل پر
وہی خون شہیداں کی نمی معلوم ہوتی ہے
ذرا اے مے کشو انجام محفل پر نظر رکھنا
کہ دور آخری میں نیند سی معلوم ہوتی ہے
مہ و انجم کے خالق کچھ نئے تارے فروزاں کر
کہ پھر آفاق میں بے رونقی معلوم ہوتی ہے
سمندر بھی ہے دریا بھی ہے چشمے بھی ہیں نہریں بھی
اور انساں ہے کہ اب تک تشنگی معلوم ہوتی ہے
زمانے کی ترقی تشنۂ تکمیل ہے یا رب
ابھی اک مرد مومن کی کمی معلوم ہوتی ہے
نہ جاؤ دیکھ لو شمع سحر کا جھلملانا بھی
یہ محفل کی بہار آخری معلوم ہوتی ہے
تو پھر کرنا ہی پڑتا ہے وہاں اقرار قدرت کا
جہاں انسان کو اپنی کمی معلوم ہوتی ہے
مری اک آہ پر جو پھول دامن چاک کرتے تھے
اب ان کو میرے نالوں پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
بظاہر چشم ساقی محو خواب ناز ہے لیکن
جواب نرگس بیدار بھی معلوم ہوتی ہے
ہمیشہ خوش رہے ان کی نگاہوں کی مسیحائی
اب اپنی زندگی بھی زندگی معلوم ہوتی ہے
محبت ہے ضرور ان سے مگر میری متانت کو
نہ جانے کیوں یہ نسبت بھی بری معلوم ہوتی ہے
شفیقؔ آثار ہیں مشرق کی جانب تازہ کرنوں کے
یہ میری شام نو کی چاندنی معلوم ہوتی ہے






