کوئی آتا نہیں یہ بہاریں زنگ سی ہوگئی ہیں
مدتیں تڑپ تڑپ کر اب تو پتنگ سی ہوگئی ہیں
نہیں دل چاہتا کہ پھر سے زخموں کو ہوا دیں مگر
خود پہ نہ قابو عادتیں بے ڈھنگ سی ہوگئی ہیں
تیری تحریروں کو کبھی کبھی غور سے پڑہ لیتا ہوں
مرجھائی پتیوں کے ساتھ وہ بے رنگ سی ہوگئی ہیں
تو ہی بتا بکھرتی سوچوں کو کیسے باہم کروں
سبھی یہ فراستیں ابکہ اتنی تنگ سی ہوگئی ہیں
میں سخت گیر ہی صحیح، تہ نشین نہیں ہو سکتا
رعنایاں تذکیر و تانیث، ایک انگ سی ہوگئی ہیں
سوچتا ہوں کہ ہر مزاج سے کتراکے گذروں لیکن
سنتوشؔ ابکہ سبھی تجویزیں جیسے جنگ سی ہوگئی ہیں