کوئی تم سے اگر میرا پوچھے
تم کہہ دینا کہ کوئی نہیں
شا ئد رہی تھی ملاقات کبھی
پر ایسی اب تو با ت نہیں
یا ممکن ہو تو کہہ دینا
دوست میرا تھا کچّا سا
کچھ دور چلا اور چھوڑ گیا
تاکہ جھوٹ لگے یہ سچاّسا
وعدے تھے نہ قسمیں تھیں
نہ پیار کی کوئی باتیں تھیں
کہیں مل بیٹھے احوال کیا
بس رسمی سی ملا قاتیں تھیں
نہ چال دُلاری اُس کی تھی
نہ جُگنو اُس کا چہرہ تھا
نہ شان شہزادوں جیسی تھی
نہ لہجہ موتی جیسا تھا
کس رہ پر آ کر آن ملا
کس موڑ پر ہم کو چھوڑ گیا
سچ پوچھو تو یاد نہیں
خوابوں میں اُس کی صورت
شائد ہاں یا وہ بھی نہیں
کوئی ہم سے اگر تم کو پوچھے
ہم کہہ د یں گے کہ کوئی نہیں
شا ئد رہے تھے دوست کبھی
پر ہم کو تو کچھ یا د نہیں
ہم ہرگز یہ نہ بو لیں گے
کچھ خواب بُنے تھے ساتھ کبھی
آنکھ کھُلی اور ٹوٹ گئے
شائد کہیں ہو اب راکھ دبی
دِن اُس کے نام سے روشن تھے
نیندو ں میں پہرہ اُس کا تھا
کیا غنچے،خوشبو،شفق،دھنک
ھر شے پہ ڈیر ہ اُس کا تھا
منجدھارمیں ہم کوچھوڑ گیا
سب رشتے ناطے وہ توڑ گیا
پھر یاد ہمیں کیوں آتی ہیں
پیار کی جو بھی رسمیں تھیں
جو تم چاہتیں تو ممکن تھا
باتیں یہ تمھارے بس میں تھیں