راز جو دل میں مقفل تھا مجھ پہ کھل گیا ہے
ہم نے سب بند دریچوں کو عیاں کر دیا ہے
یونہی افسردہ نہیں ہوئی فضائے گلشن
گلوں نے آپکے خوابوں کو شاید پڑھ لیا ہے
فقط تقدیس کی باتیں تو نہ کرو ہمدم
جسے تم سوچتے ہو کب سے وہ تمہارا ہے
یونہی تو شور نہیں برپا بھری محفل میں
تمہاری آنکھ سے اک اشک ابھی چھلکا ہے
رہ جنون کو جاناں فریب مت کہئے
جو تیری روح کا عنوان ہے وہ بس تیرا ہے
مجھے معلوم ہے تیری تمنا ماورا تھی
میں نے حاصل بھی میری جان تجھے دے دیا ہے
کیا مٹائے گی سمندر کی موج نام تیرا
میں نے ساحل پہ نہیں دل پہ تجھے لکھا ہے
باقی آئندہ