کچھ بھی نہیں ہے پاس ہماری مثال دے
اس شہر بے چراغ میں اک یہ وبال دے
ہاتھوں میں میرے چاند ستارے نہیں تو کیا
دل میں ترے یقین کا روشن کمال دے
رستے کی مشکلوں سے ہراساں ہے کس لیے
جس کا نہیں ہے کوئی بھی اسکی وصال دے
کس سے چھپا رہا ہے تو دل کی کہانیاں
وہ حال روز و شب سے مرے یہ نکال دے
وقت اور مقام سے نہ کبھی ہم گزر سکے
گزرے مقام و وقت کا کوئی سا سال دے
کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے
کچھ برگ سبز وقت سے پہلے ہی ٹال دے
وشمہ کسی سے لاکھ بہانے کرے مگر
لیکن بچھڑ کے تجھ سے بھی وہ ملال دے