کچھ تو ایسے بھی گھر ہوئے آباد
جن میں بس طاق ہو سکے آباد
شہر کے شہر خُود میں تھے ویران
اور ویران دشت تھے آباد
مجھ سے کانٹے کو چھوڑ کر باقی
باغ کے سارے پھول تھے آباد
گھر تو آباد کر دیا لیکن
دل کے گھر میں نہ ہو سکے آباد
کبھی اُن راستوں کا سوچا جو
تیرے جانے سے نہ رہے آباد
گھر وہ ہم سے نہ ہو سکا تعمیر
جس کی بنیاد رکھ گئے آباد
چپ رہے غم سے چیخ بھی نہ سکے
خُون تھوکے وہ لب رہے آباد
کے زمانے ہوئے جنید اجڑے
کتنے کھنڈر بھی ہو چکے آباد