کچھ تو محبتوں کو سیاست سے دور رکھ
شاداب بارشوں میں وضاحت سے دور رکھ
دنیا ہے مال و زر کی محبت میں مبتلا
برعکس اس کے پیار کی حاجت سے دور رکھ
بے وجہ ساری رات وہ سڑکوں پہ گھومنا
اک دور تھا عجیب سی وحشت سے دور رکھ
آتا ہے یاد آج بھی شدت سے رات بھر
کب اس کو بھول جائے عبادت سے دور رکھ
فکر معاش فن کو مرے چاٹتی رہی
روٹی کی عمر بھر تو ضرورت سے دور رکھ
میرے خلوص کا کبھی تجھ سے ملے صلہ
ناداں ہوں آج تک یہی حسرت سے دور رکھ
رشتوں کو ٹوٹنے سے بچاتی رہی سدا
اس بات کوہمیشہ سیاست سے دور رکھ
شاید کہ روز حشر مرا کم حساب ہو
انساں سے پیار وشمہ شرارت سے دور رکھ