دل کا سوال تھا تو بتایا کچھ نہیں لکھا
ہم نے جو حال پوچھا، سنایا کچھ نہیں لکھا
آنکھوں کی روشنی میں وہ جذبہ نہ مل سکا
خوابوں کے سلسلے میں سجا کچھ نہیں لکھ
خاموش لب تھے اس کے، زباں بھی سجی رہی
مگر جو اصل بات تھی، کہا کچھ نہیں لکھا
محبتوں کے خواب سجائے جو دل میں تھے
انہی کے بارے میں بھی جُدا کچھ نہیں لکھا
محفل میں ہم نے چاہا کہ وہ بات کر سکے
لیکن جو بات پوچھی، کہا کچھ نہیں لکھا
سوچا تھا کوئی راز بھی افشا کرے گا وہ
پر جب ملا قریب تو کہا کچھ نہیں لکھا
خط کے کنارے لفظ بھکڑےپڑے رہے
خط ختم جب ہوا تو پتاکچھ نہیں لکھا
ہم نے بھی انتظار کیا اس کی بات کا
پر وہ قریب آیا تو ہوا کچھ نہیں لکھا
بدیؔع نے پوچھا عشق میں سب کچھ روا ہے کیوں؟
ہنستے ہوئے کہا کہ مزا کچھ نہیں لکھا
بدیؔع کہے کہ عشق بھی حیرت کا باب ہے
دل نے جو حال پوچھا، کیا کچھ نہیں لکھا