اُجاڑ رستے، اداس گلیاں
عجیب برکھا، مہیب بجلی
یہ کہہ رہے ہیں، اگر سُنو تو
کبھی مداوا تو ہو سکے گا
کہا جو تُم نے، سنا جو میں نے
سنا جو تُم نے، کہا جو میں نے
یہاں سے دیکھوں وہاں کھڑی ہو
جبیں تُمہاری یہ چھوتی بوندیں
سُنا رہی ہیں پرانی باتیں
کبھی جو غصے میں آ گئے تھے
کہا جو تُم نے سُنا تھا میں نے
سُنا جو تُم نے، کہا تھا میں نے
ارے جو بجلی چمک رہی ہے
سنو کے غصے میں کہ رہی ہے
یہ میری باتیں یہ تیری باتیں
عجیب باتیں، فضول باتیں
محبتوں میں یہ باتیں کیسی
اداس برکھا کی راتیں کیسی
سنو یہ برکھا تو تھم رہی ہے
یہیں پہ رہنا یہ کہہ رہی ہے
کہا سُنا بھی ، سنا کہا بھی
یہیں پہ رہتے بھلا سکیں گے
اسی بہانے یہ آس ہو گی
قریب پھر سے تو آ سکیں گے