کہانی بنتی گئی ہے فسانہ بنتا گیا
مرے خلاف یہ سارا زمانہ بنتا گیا
میں روز چنتی رہی خواہشوں کے تنکے یہاں
خدا کا شکر مرا آشیانہ بنتا گیا
مجھے خبر نہ ہوئی اور میرے سینے میں
نا آشناءے وفا کا ٹھکانہ بنتا گیا
جو شعر لکھتی رہی ہوں میں اپنی مستی میں
وہ تیرے حسنِ نظر کا ترانہ بنتا گیا
یہ ساری دنیا رہی اک طرف اکٹھی مگر
ترے لئے تو الگ دل میں خانہ بنتا رہا
میں وشمہ جوڑ کے رکھتی رہی جو لوگوں کو
محبتوں کا یہ میرا خزانہ بنتا رہا