یہ بوڑھے لوگ پہلی سی جوانی کو ترستے ہیں
بیچارے عمر کے صحرا میں پانی کو ترستے ہیں
کہاں ہیں نانیاں اور دادیاں گزرے زمانے کی
کہ بچے سونے سے پہلے کہانی کو ترستے ہیں
پیچیدہ ہو گئی ہے زندگی اس دور میں سب کی
گھرے جو مشکلوں میں تو آسانی کو ترستے ہیں
اشارہ آپ کی آنکھوں کا مبہم تھا سمجھتے کیا
ذرا ہم پر وضاحت ہو کہ معنی کو ترستے ہیں
رہا نہ اب کوئی پردہ حقیقت جان لی ہم نے
دروں سے ہو گئے واقف حیرانی کو ترستے ہیں
سخن بہتے ہوئے دریا کی طرح کاش کہہ سکتے
غزل میں میر سی زاہد روانی کو ترستے ہیں