کہاں یہ مانگتے ہیں زندگی تمام کرو
Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachiکہاں یہ مانگتے ہیں زندگی تمام کرو
بس ایک شام ہی جاناں ہمارے نام کرو
اب اور ہجر میں ہم سے جلا نہیں جاتا
گو خواب میں ہی سہی یار پر کلام کرو
یا آؤ لوٹ کے پھر سے ہماری دنیا میں
وگرنہ مٹی ہماری کا انتظام کرو
ہمارے شہر میں پھر سے وباءِ ہجراں ہے
ہمارے شہر میں پھر سے شراب عام کرو
نہ میکدے سے مجھے روز اٹھا کے لایا کرو
شریف لوگ ہو تم تو نہ ایسے کام کرو
مجھے خلوص بھی اتنا پسند نہیں یارو
ہر ایک موڑ پہ مجھ کو نہ تم سلام کرو
اے میرے دل نہ اسے یاد کر کے رو اب تُو
یہ تم سے کس نے کہا تھا کہ ایسے کام کرو
یہ بات ذہن میں رکھ کر تم آنا میخانے
دے جام دشمنِ جاں بھی تو احترام کرو
ہاں یہ بھی شامل آدابِ میکدہ میں ہے
کہ ایک سانس میں ہی خالی سارا جام کرو
زمانہ جس کو پُکارے ہے میکدہ باقرؔ
یہی فقیر کا دَر ہے یہیں قیام کرو
More Love / Romantic Poetry






