کہوں اگر تو کیا کہوں
جاناں ! تمہاری یاد بہت ستاتی ہے
دوری مٹ نہیں پاتی ہے
میں صدیایئں دیتی رہتی ہوں
پر میری آواز
تجھ تک نہیں جاتی ہے
میں تیری خاموشی میں بھی
تیری ہر بات سمجھوں
پر میرے چلانے پر بھی
تجھے سمجھ کیوں نہیں آتی ہے
یہ ہجر کا عالم
یہ روگ جدائی
اندر ہی اندر
مسلسل مجھے کھاتی ہے
میری ُسرخ آنکھیں
آنسوؤں کی ندیاں بہاتی ہے
اچھا ہو اگر تم لوٹ آو
ورنہ تمہاری لکی
جی اور نا ہی مر پاتی ہے
کہوں اگر تو کیا کہوں
جاناں ! تمہاری یاد بہت ستاتی ہے