کہیں زمیں پر کوئی اک ایسا رواج ہونا تو چاہیے تھا
خموش لوگوں کا بھی الگ اک سماج ہونا تو چاہیے تھا
مجھے مسیحا کی بےبسی نے رُلا دیا تھا بوقتِ آخر
مریضِ عشق و وفا کا بھی کچھ علاج ہونا تو چاہیے تھا
ہمارے آنسو کچھ اس لیے بھی ہمارے دل پر ہی گِر رہے ہیں
کہ زخمِ دل ہے ، نمک سے اس کا مساج ہونا تو چاہیے تھا
وطن میں ہر سُو دروغ گوئی کی حکمرانی ہوئی ہے شاؔہد
سو حق کی خاطر ہمارے سر کا خراج ہونا تو چاہیے تھا