کیا بتائیں کیا ہوئی حالت در و دیوار کی
کائی سی جمنے لگی صورت میں سبزہ زار کی
اشک بن کر بہہ گیا آ نکھوں میں جتنا خون تھا
ہم سے کب دیکھی گئی تھیں سرخیاں اخبار کی
موسموں نے رنگ بدلا دیکھتے ہی دیکھتے
لد گیںٔ پتوں سے ساری ٹہنیاں اشجار کی
آ مرے محبوب آ ! میری ہتھیلی چوُم لے
منتقل کر دوُں حرارت تجھ میں اپنے پیار کی
ہر کسی کے سامنے ہوتا ہے اپنا ہی مفاد
عشق ، قربانی ، وفا باتیں ہیں سب بیکار کی
ہو کے رہ جائیں گے ہم محبوس اِس زندان میں
ڈھونڈ دروازہ کوئی باتیں نہ کر دیوار کی
بن چکا ہے مسئلٔہ اب یہ اناۓ ذات کا
بات کب باقی رہی اب جیت کی یا ہار کی
پیچھے رہ جاتے ہیں بیلا ، مو تیا ، چمپا ، گلاب
بات ہوتی ہے تیری سانسوں کی جب مہکار کی
آپ نے آ نکھوں ہی آ نکھوں کچھ ایسے داد دی
مل گئی عذراؔ مجھے قیمت مرے اشعار کی