کیا بات سناؤں میں اُس کی اب بات پرانی رہی نہیں
Poet: NEHAL GILL By: NEHAL, Gujranwalaمیں اُس کا راجہ رہا نہیں وہ میری رانی رہی نہیں۔
کیا بات سناؤں میں اُس کی اب بات پرانی رہی نہیں۔
ہم ملتے تھے جس باغ میں وہ باغ ویرانوں میں دن گیا
میری طرح باغ بھی اُجڑے کوئی باقی نشانی رہی نہیں۔
عشق و عشرت کے دن گئے پہلے جیسا جنون نہیں اب
اُس کے بال سفید ہوئے مجھ پے بھی جوانی رہی نہیں۔
شعر و شاعری میں بیان ہوتی تھی پیار کی باتیں سب
اب بات یاد رہتی نہیں زبان میں بھی روانی رہی نہیں۔
رہا ترے وصل کا آرزو مند میں جتنے سال بھی جیا
کیسے دؤں گنوائی اپنے حالات کی زندہ زندگانی رہی نہیں۔
حویلی دل کی کیسے نہ لُٹتی اب تُم ہی کوئی جواب دو
خواہش بے چادر پڑی رہی دل کی کوئی نگرانی رہی نہیں۔
دل کے سب ورکوں کو ترے غموں سے سیاہ کیا میں نے
میں نے لکھ دیا ہر راز دل پے اب بات زبانی رہی نہیں۔
چھوڑو کیا کرنا سُن کے وہ وقت کے ساتھ بیت گئی نہال
کیا کرنا سُن کے وہ کہانی یار جو اب کہانی رہی نہیں۔
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






