کیا خبر تھی کہ ہم پھر جینے لگیں گے
غم ضبط سے ٹوٹ گئے تو پینے لگیں گے
جس کو ہماری عرضی سے انکار ہے
اس کی ہی مرضی سے مرنے لگیں گے
ہم ہار کر وسعت کی گود میں سوگئے
کہ پھر داب لیئے کچھ کرنے لگیں گے
لگتا ہے اک شمع کے سرُور کے لیے
ہر جنم پروانے یونہی جلنے لگیں گے
خیالوں کا آغوش اس طرح ہے کہ
حقیقت دیکھو بھی تو سپنے لگیں گے
جو انگلیاں تیرے زلف کو سموتی تھی
اس میں قلم آگیا تو کیا لکھنے لگیں گے؟
دل نے کیسے توقع کی ہے سنتوش کہ
جس کی امید نہیں وہ آنے لگیں گے