کیا خوف کے عالم میں ہیں لپٹے ہوئے الفاظ
اک ایسی گھٹن ہے کہ زباں ساتھ نہیں ہے
سوچا ہے کہ تنہائی کے اس دشت میں رہ لوں
تم ساتھ نہیں دو تو کوئی بات نہیں ہے
چبھتا ہے مجھے ڈوبتے سورج کا تصور
اس شام کی قسمت میں مگر رات نہیں ہے
میں چاہوں تو ہو جائے مری جیت مری ہار
یہ حلقہ احباب مرے ساتھ نہیں ہے
میں چاہوں تو ہو جائے مری مات مری جیت
یہ حلقہ احباب مرے ساتھ نہیں ہے