کیا ملا ہے انور جی اپنا جی جلانے سے
Poet: Anwar Kazimi By: syed kazimi, mississauga, Canadaکیا ملا ہے انور جی اپنا دل جلانے سے
کیوں نہ دوستی کر لیں بے وفا زمانے سے
آپ کو جھجک سی ہے کیوں گلے لگانے میں
فاصلے تو مٹتے ہیں ، فاصلے مٹانے سے
مجھکو یاد کر کر کے کیوں اُداس رہتے ہو
کس نے تمکو روکا ہے مجھکو بھول جانے سے
جس جگہ بسے ہو تم، دل ہے ایک شاعر کا
اچھا ہے چلے جاوْ اِس غریب خانے سے
اسقدر تماشائے ضبطِ حال رہنے دو
بھید اور کھلتا ہے ا تنا مسکرانے سے
ایک بار تو رکھ لو تم بھرم محبت کا
ایک بار آ جاؤ تم مرِے بلانے سے
کیوں اُداس تھا سورج شام کے کنارے پہ
کیوں ہمارا دل ڈوبا اُسکے ڈوب جانے سے
جیسا بھی ستمگر ہو ، پر یہ بات ہے اُس میں
محفلوں میں رونق ہے اسکے آ نے جانے سے
اُس سے بھی کہو تھوڑی عاقبت سنوارے وہ
اور تم بھی باز آ ؤ جھوٹی قسمیں کھانے سے
کچھ تو بولئے صاحب، کیا کمی ہے جینے میں
کیوں اُداس رہتے ہیں آ پ اک زمانے سے
چھوڑ چھاڑ کر تجھکو کیوں چلی گئی دنیا
تنگ آ گئی ہو گی وہ ترے فسانے سے
شاعری میں انور جی کتنی ہوشیاری سے
اُس کی بات کرتے ہو سیکڑوں بہانے سے
اے مرِے نبی کیسا رشتہء عقیدت ہے
میرے دل کی چوکھٹ کا تیرے آ ستا نےسے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






