کیسی مجھ کو یہ پیاس رہتی ہے
زندگی کیوں اداس رہتی ہے
ایک ہستی جو دور ہے مجھ سے
وہ خیالوں میں پاس رہتی ہے
اس کے قدموں کا منتظر ہوں مجھے
اس کے آنے کی آس رہتی ہے
اس کا شکوہ بھی ہے بہت شیریں
اس کے لب پہ مٹھاس رہتی ہے
اپنے جب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں
ہم کو غیروں سے آس رہتی ہے