کیسی ملی ہے مجھے شام نہال،
چھین گیا کیوں مرا آرام نہال،
عجب ہے یہ کیسی رات ہے آج
تارے لگاتے چاند پے الزام نہال،
بند کمرے میں بس قلم لئے
لکھتے رہتے ہیں ترا نام نہال،
ہوائوں ذرا جانا اُس کے پاس
سر جُھکا کے کہنا سلام نہال،
دل سے زخم ، لبوں پے سسکیاں
محبے میں ملے یہ انعام نہال،
نہ محبے کرنا کہا لوگوں نے
ہو جائو گے تم ناکام نہال،
اُسے بھولنا مرے لئے ممکن نہیں
جس عمل کو وہ سمجھتے ہیں عام نہال،
کرتے ہیں چاق خودی گریبان سیتے ہیں
آجکل بس یہی ہے اپنا کام نہال،
بھر کے اشکوں سے چشمِ محبت
محفل میں وہ اُڑاتے ہیں جام نہال،
اب آئینے سے بھی نظر نہیں ملاتے
یُوں عشق میں ہوئے ہم بدنام نہال،
ہم آنسو چھپاتے پھرتے ہیں اپنے
لوگ ہستے ہیں ہم پے سریام نہال،
یاد جب چاہے تری رُلاتی ہے مھجے
تری یاد کے ہے جیسے ہیں غلام نہال،
آنسو ملے، درد ملے ، زخم ملے
غم محبت کے ملے مجھے تمام نہال،
توٹی سانس کی دُوری جو مری
تو ہوا غموں کا پھر احتیال نہال،