کیسی یہ بے رخی ہے نہ کچھ التفات ہے
نَظَرِ کَرَم تو غیروں پہ یہ کیسی بات ہے
ہم نے تو دوستی یہ سمجھ کر ہی تم سے کی
بہنے نہ پائے آنسو یہ کیسی وَلات ہے
ہم کو تو بس وفا کی ہی امید تم سے تھی
ہم کو تو کیا خبر تھی وفا بے ثَبات ہے
ہم نے کیا تھا تم سے تو عَہْدِ وَفا کوئی
کچھ کچھ خبر ہمیں بھی ہے کیا کچھ نِکات ہے
نازک سا ہے یہ شیشہ یہ پتھر نہیں ہے دل
ایسا نہ سمجھو اس کی نہ کچھ بھی بِسات ہے
راہ وفا میں چوٹ اثر نے بھی کھائی ہیں
اس نے قدم قدم پہ دکھایا ثَبات ہے