کسی راز سے ترے انجان نہیں میں
گر خاموش ہوں تو وجہ ہے۔
تری بےوفائی پے اِس لیئ قہرام نہیں کرتے
مجھے آج بھی تجھ سے وفا ہے۔
لو رکھ دی میں نے جان ترے قدموں پے
اپنائوں یا رونڈ دو اب تری رضا ہے۔
تُو شاید کہ اب جدائی چاہتی ہے
تری باتوں سے کچھ ایسا لگا ہے۔
دل کا خاکہ بنا ہو گا اشکوں سے
غور کرنا میں نے جو خط لکھا ہے۔
پل بھر میں یہ دل توڑ دیا تُم نے
سچ کہوں دل پے ظلم کیا ہے۔
بڑا ناز تھا مجھے اپنی محبت پے
آج مگر یہ دل شرم سار جُھکا ہے۔
لوٹ آنا ہے تو مرضی ہے تری
میں نے دل کا دروازہ کُھلا رکھا ہے۔
محبت کی تو توٹنا ہی تھا تجھے
اے نادان دل تری یہی سزا ہے۔
نہال کرکے پیار مجھے اِس زمانے سے
آخر درد کے سیوا ملا کیا ہے۔