گرفت کے الجھاؤ تو یہاں اکثر گھمتے ہیں
بے جا رُخ بھی کہیں خود سر گھمتے ہیں
وہاں فضائیں بھی کہیں چنچل نہیں ہوتی
جہاں حالاتوں کے بھٹکے متفکر گھمتے ہیں
کسی کسی کا عطیہ شفا دیتا ہے ورنہ
یہاں لہو لیئے تو کئی لشکر گھمتے ہیں
پھر انہوں نے کس نگاہ پہ جماؤ پالیا
تُو تو کہتا تھا یہ نین مُدبر گھمتے ہیں
پھر اپنی خودی کی شناسائی کہاں سے لاؤں
اس فراق میں کئی بے رخ تدبُر گھمتے ہیں
پوچھا کہ پھر عاقبت کیا ہوگی سنتوشؔ
سنا ہے کہ وہاں بھی بڑے حشر گھمتے ہیں