گرچہ پہلے مچل گئے ہوں گے
چوٹ کھا کر سنبھل گئے ہوں گے
خط مرے اُس نے جب جلائے ہوں گے
ہاتھ اُس کے بھی جل گئے ہوں گے
کیوں کہ آدم کی پشت میں سے ہیں
ہم بھی یا رب! پھسل گئے ہوں گے
اُن کتابوں کو کھا گئی دیمک
پھول بھی ساتھ گل گئے ہوں گے
بعد مُدَّت کے واپسی ہو گی
کتنے چہرے بدل گئے ہوں گے!
چلتے چلتے تمھارے رستے میں
پاؤں میرے ہو شل گئے ہوں گے
کون سی بات یاد رہتی ہے؟
اُن سے ملنے بھی کل گئے ہوں گے!