انکے اندازِ کرم ان پے وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا
الفاظ کر سکتے ہیں بیاں کہاں یہ فسانہ دل کا
ڈھونڈیں تیرے چہرے کے فسوں سا ٹھکانہ دل کا
جانے کب جائے چوکھٹ سے تیری یاد کا چاند 🎑
مسئلہ تیرے الہڑ سے لڑکپن پے ہے آنا دل کا
میرے بس میں اگر ہو تو بامِ تقدیر سے یار
کھینچ ہی لاؤں تجھے کہ خالی ہے یہ خانہ دل کا
توں تو مَدُّھر سی شفیق سی گھنی چھاؤں ہے
لوگ پوچھیں گے پتہ تیرے شاہانا تِل کا
ہائے کہ رہ جائے گا میرے ساتھ تیری یادوں کا سماں
روگ ہی بن جائے گا کالیں کر کر کے اٹھانا دل کا
کچھ نئی بات نہیں یوں ہمدرد پے آنا دل کا
پر تیرے سنگ جو گزرا وہ صدیوں سا زمانہ دل کا
فقط اک میں ہی مقدر میں تیری درد کہانی سمجھوں
لوگ تو سمجھیں کہ ماہر ہے سمجھتی ہے بہلانا دل کا
یہ فقط کھیل نہیں خواب نہیں آب نہیں
اتنا آساں ہے کیا کالج سے چلے جانا دل کا
دل تو یہ چاہے عقیدت سے ملوں روز تجھے
دیکھو ایسا ہے یہ پاگل سا فسانہ دل کا
حسرتیں مدہم سی ہیں سانس بھی چلتی ہے میری
سوچتا ہوں ڈھونڈ لوں کوئی تجھ سا ہی ٹھکانہ دل کا
توں تو چاہے کہ مجھے روک لے نبھا لے مجھ سے
میں مگر مجبور ہوں ابھی رسموں کو ہے بھانا دل کا
توں نے جو دُکھ دئیے شازی کو سبھی دے مجھ کو
مگر روگ دشمن کو بھی ایسا نا لگانا دل کا
اپنا تو یہ حال ہے کہ ساحل٘ پے کھڑے ڈوب گئے
دعا کو ہاتھ بھی اٹھائے تو مانگا یہ جلانا دل کا
انکے اندازِ کرم ان پے وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا