گستاخی معاف
Poet: مصطفیٰ ساحل٘ By: Mustafa Sahil, Islamabad انکے اندازِ کرم ان پے وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا
الفاظ کر سکتے ہیں بیاں کہاں یہ فسانہ دل کا
ڈھونڈیں تیرے چہرے کے فسوں سا ٹھکانہ دل کا
جانے کب جائے چوکھٹ سے تیری یاد کا چاند 🎑
مسئلہ تیرے الہڑ سے لڑکپن پے ہے آنا دل کا
میرے بس میں اگر ہو تو بامِ تقدیر سے یار
کھینچ ہی لاؤں تجھے کہ خالی ہے یہ خانہ دل کا
توں تو مَدُّھر سی شفیق سی گھنی چھاؤں ہے
لوگ پوچھیں گے پتہ تیرے شاہانا تِل کا
ہائے کہ رہ جائے گا میرے ساتھ تیری یادوں کا سماں
روگ ہی بن جائے گا کالیں کر کر کے اٹھانا دل کا
کچھ نئی بات نہیں یوں ہمدرد پے آنا دل کا
پر تیرے سنگ جو گزرا وہ صدیوں سا زمانہ دل کا
فقط اک میں ہی مقدر میں تیری درد کہانی سمجھوں
لوگ تو سمجھیں کہ ماہر ہے سمجھتی ہے بہلانا دل کا
یہ فقط کھیل نہیں خواب نہیں آب نہیں
اتنا آساں ہے کیا کالج سے چلے جانا دل کا
دل تو یہ چاہے عقیدت سے ملوں روز تجھے
دیکھو ایسا ہے یہ پاگل سا فسانہ دل کا
حسرتیں مدہم سی ہیں سانس بھی چلتی ہے میری
سوچتا ہوں ڈھونڈ لوں کوئی تجھ سا ہی ٹھکانہ دل کا
توں تو چاہے کہ مجھے روک لے نبھا لے مجھ سے
میں مگر مجبور ہوں ابھی رسموں کو ہے بھانا دل کا
توں نے جو دُکھ دئیے شازی کو سبھی دے مجھ کو
مگر روگ دشمن کو بھی ایسا نا لگانا دل کا
اپنا تو یہ حال ہے کہ ساحل٘ پے کھڑے ڈوب گئے
دعا کو ہاتھ بھی اٹھائے تو مانگا یہ جلانا دل کا
انکے اندازِ کرم ان پے وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






