یہ سامنے آنکھوں کے جو نازک بدنی ہے
پھولوں کی جوانی ہے، بہار چمنی ہے
اک مرمریں پیکر ہے، غزال ختنی ہے
ہلچل ہے بپا، خلق کی جانوں پہ بنی ہے
تصویر نزاکت کی یہ، اللہ غنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے
محشر کی ہے تصویر، ہلاکت کا ہے نقشہ
قامت کا خد و خال، قیامت کا ہے نقشہ
نظارہ جو اس رخ کا تلاوت کا ہے نقشہ
شوخی ہے، سراپا میں رعونت کا ہےنقشہ
زنجیر حوادث کی، یہی زلف گھنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی پے
انفاس کی خوشبو سے گلستاں ہیں معبر
ابرو جو کماں دار تو مژگاں بھی ہیں نشتر
چہرے کی تجلی سے پشیماں مہ و اختر
جلوے ہیں قیامت تو خد و خال ہیں محشر
شوخی ہے، طبیعت میں بھری نیش زنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے
گلشن کی جوانی کو مسلتے ہوئے آئے
لہروں کی طرح جوش میں بپھرے ہوئے آئے
جھنڈے وہ رعونت کے یوں گاڑے ہوئے آئے
دل زلف کی زنجیر میں باندھے ہوئے آئے
ہر دانت پری وش کا عقیق یمنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے
آتی ہیں جسے دیکھ کے پھولوں کو حیائیں
زلفوں سے ہوں شرمندہ یہ گھنگھور گھٹائیں
بلبل کے ترنم میں ہیں خاموش ثنائیں
تارے جو تصدق ہیں، تو لے چاند بلائیں
رونق میرے گلشن کی وہ عنبر دہنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے
رخسار کی گرمی کا بیاں کس سے ہو ممکن؟
جبریل بھی دیکھے جو کہیں آج وہ کمسن
ایماں کا نہیں اس کے اے زاہد ! کوئی ضامن
الحاد کے عالم میں رہے کیسے وہ مومن؟
ہر ایک ادا باعث ایماں شکنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے
نغمے ہیں نہاں حسن ترنم میں ہزاروں
طوفان حوادث ہیں تبسم میں ہزاروں
ڈوبے انھی جلوؤں کے تلاطم میں ہزاروں
گم اہل خرد دیکھے تکلم میں ہزاروں
لہجے میں عجب موجہ شیریں سخنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے
چہرے کے خط و خال کی ہے دھار نرالی
دنیا کے خطیبوں سے ہے گفتار نرالی
ہونٹوں پہ ہے انکار کی تکرار نرالی
بجتی ہوئی پازیب کی جھنکار نرالی
سر تا بہ قدم نور کی چادر سی تنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے
فرہاد فدا، قیس ہے انداز کے صدقے
دنیا کے پری زاد ہیں اس ناز کے صدقے
جو بلبل شیراز ہے آواز کے صدقے
تو خضر و مسیحا لب اعجاز کے صدقے
یہ جنبش لب ہی مری تقدیر بنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے
ذرے انھی گلیوں کے زمانے میں ہیں پکھراج
ہو سلطنت حسن کا درکار جسے راج
جا کر ہو کسی ناز کے پیکر کا وہ محتاج
صد شکر کہ رومی ہے ملا رنگ نصیر آج
رگ رگ میں رچی عاشق و برہمنی ہے
کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے