گلوں میں کوئی گلزار میں غرق
میں فقط کوچہ یار میں غرق
شیدائے شراب و کباب ہیں لوگ
میں تیرے چشم خمار میں غرق
ہم ہوئے آتش فراق میں راکھ
تم ٹھہرے محفل اغیار میں غرق
دیتے کس طرح ، دلاسہ دل کو
جو ہے تیرے ، انکار میں غرق
ٹھہرے جو ہم ، خزاں کے پروردہ
کیا غرض ، ہے کون بہار میں غرق
دریا نہ سمندر ، ڈبو سکا ہمیں
رہے تا مرگ گل عذار میں غرق
فکر عقبیٰ کچھ تو چاہئے غافل
کب تک حیات مستعار میں غرق
واسطہ جب سے پڑا ان سے طاہر
ہوئے جاتے ہیں خس و خار میں غرق