گو سکندر سے میں نہیں کم تھا
Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکوالگو سکندر سے میں نہیں کم تھا
پر ترے در کا ایک خادم تھا
کبھی جس میں کوئی سماں نہ تھا
باغِ جاں پر اک ایسا موسم تھا
جسے پی کر بھی تشنہ کام رہے
بس پہنچ میں وہ چاہِ زم زم تھا
یوں تو مغرور تھے اندھیرے بھی
لیکن اپنا چراغ مدہم تھا
یاد کے زخم میں نے خُود نہ بھرے
ہاتھ میں زہر کا بھی مرہم تھا
دمِ رخصت کسی خطا کے بغیر
وہ مقدس سا رُخ بہت نم تھا
ورد سے ہونٹ جل گئے میرے
جاں ترا نام اِسمِ اعظم تھا
غم میں رو کر جہاں ڈبو دیتا
اپنی آنکھوں میں آب ہی کم تھا
زندگانی الجھ گئی جس سے
وہ تری زُلف کا کوئی خم تھا
پیش پتھر پہ ہو تو پھٹ جائے
ایسا تیرے فراق کا غم تھا
تجھے جس طور سہہ گیا ہوں میں
اتنا فولاد میں نہیں دم تھا
آسماں سے میں جنگ لڑتا رہا
یہ نہ سوچا میں ایک آدم تھا
روبرو جس کے ہر جبیں خم تھی
وہ ترے پیرہن کا پرچم تھا
لاتے لاتے ہی مر گیا قاصد
وہ ترا خط تھا یا کوئی بم تھا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






