گیت
Poet: NADEEM MURAD By: ندیم مراد, umtata RSAاردو شاعری کی لطیف صنف گیت، گیت کا بھی غزل کی طرح کوئی عنوان نہیں ہوتا وہ اپنے مزاج، آہنگ اور مضامین سے پہچانا جاتا ہے۔ ایک گیت پیش خدمت ہے۔
سانسوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
باتوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
موسم تو آتے ہیں سردی بھی آتی ہے
شہروں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
یخ بستہ سردی کیا ہے، گر ہو ملنا طے
گلیوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
الفت میں ٹوٹے دل ٹھنڈے بھی پڑ جائیں
سینوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
منزل کی جانب سب چلتے ہیں تیزی سے
جزبوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
بارش میں بھیگے تو ٹھنڈی ہو ہر اک شئے
جسموں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
دیکھی ہے چھپ چھپ کر میں نے تو وہ لڑکی
پردوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
کہتی ہے مجھ سے یہ سردی کی ٹھنڈک بھی
دونوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
پھولوں پر بھنورے جو دیکھیں تو بڑھنے کی
کلیوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






