اردو شاعری کی لطیف صنف گیت، گیت کا بھی غزل کی طرح کوئی عنوان نہیں ہوتا وہ اپنے مزاج، آہنگ اور مضامین سے پہچانا جاتا ہے۔ ایک گیت پیش خدمت ہے۔
سانسوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
باتوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
موسم تو آتے ہیں سردی بھی آتی ہے
شہروں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
یخ بستہ سردی کیا ہے، گر ہو ملنا طے
گلیوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
الفت میں ٹوٹے دل ٹھنڈے بھی پڑ جائیں
سینوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
منزل کی جانب سب چلتے ہیں تیزی سے
جزبوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
بارش میں بھیگے تو ٹھنڈی ہو ہر اک شئے
جسموں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
دیکھی ہے چھپ چھپ کر میں نے تو وہ لڑکی
پردوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
کہتی ہے مجھ سے یہ سردی کی ٹھنڈک بھی
دونوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے
پھولوں پر بھنورے جو دیکھیں تو بڑھنے کی
کلیوں میں انجانی سی گرمی رہتی ہے