نہ وہ آیا نہ اسکے بعد کبھی
دلِ بے ربط چین پائے گا
وقتِ نا مہرباں کی بات نہ کر
آج آےا تہ کل کیا آئے گا
درد نے روح سے بہم ہو کر
توڑنی چاہی ہیں طنابیں دل
روح سے رشتہ ئ بدن کب تک
آخر یک روز ٹوٹ جائے گا
دل سا آوارہ کوئی کےا ہو گا
روزو شب زندگی کے تعاقب میں
آج نکلا تو کھینچ لائے تم
کل نہ لوٹا تو کون لائے گا
زندگین کو خراج ساری عمر
دل چکاتا رہا پہ لاحاصل
میرا ساےہ مرے بدن کا رفےق
کسطرح سے ئسے چکائے گا
روشنی کا رقیب اندھھھیرا
تادمِ مرگ دم نبھائے گا
کل کا سقرج نکل بھی آیا تو
شام ڈھلتے ھی ڈوب جائے گا
آج گو لمحہ ئ موجود میں ہے
میرے سینے میں تلخیئ حالات
کہیئ جام و سبق کی بات کرو
لمحہئ غم بھی بےت جائے گا