ہاں اُس سے رفاقت تھی کبھی، ہاں اُس سے محبت تھی کھبی، ہاں اُس ہی کا ذکر ہے یہ، جو رُک رُک کے چل رہی تھی ابھی، ہاں بہاریں تھی کبھی جیون میں، ہاں بستا تھا کوئی اس دل میں، ہاں اُس ہی کی عطا ہے، کہ آج پہنچے اِس حال پہ ہو کے برباد