ہر ایک محبت محبت کرتا پھرتا ہے
Poet: مظہراقبال گوندل By: مظہراقبال گوندل, Karachiہر ایک محبت محبت کرتا پھرتا ہے یہاں لیکن
سچ ہے کہ بہت سے محبت کے نام پر کھلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بستی کہاں سچ مِلتا ہے وفا وال
یہ جھوٹی دنیا میں اکثر اپنے دل کو برباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سچّوں کے پیچھے پھرنے والے کم ملتے
یہ لوگ تو بس دُکھ دے دِلوں کو برباد کرتے ہیں
یہ سچّے جذبوں کا گہوارہ اکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فقط شاد کرتے ہیں
یہ دنیا بس نام کی خوشیاں سچّے دلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اکثر اپنی سچّائی کو برباد کرتے ہیں
یہ خلوص کا سایا بھی اب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مطلب پرست فقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وعدوں کا موسم کب رہتا ہے گزر جاتا ہے لمحوں میں
یہ رشتوں کے نام پر اکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سچّے جذبے بھی مظہرؔ دُکھ سہتے سہتے چپ ہو جاتے
یہ لوگ تو بس اپنے مطلب سے ارشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سچّوں کے سنگ چل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھوٹ کی دُنیا والے اکثر دل ناشاد کرتے ہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






