یہ موسم اور حسیں ہوتا جو میرے پاس تو ہوتا
نہ گل کو دیکھتا کوئی اگر تو روبرو ہوتا
ہمارا دل یہ کہتا ہے کہ موسم آج پیارا ہے
یہ کہتا ہے ہمیشہ ہی ہے جب بھی ساتھ تو ہوتا
یہ کیسا عشق تھا اپنا کسی کو کچھ خبر نہ تھی
مزہ تو تب ہی تھا سجنا کہ چرچا کوبکو ہوتا
مرا محبوب پیارا ہے نہیں اس سا کوئی پیارا
یہ چندا سر نگوں ہوتا جو اس کے روبرو ہوتا
ہے لیتا اوٹ بادل کی یہ چندا دیکھ کر اس کو
یہ شرما کے نہ یوں چھپتا جو اس سا خوبرو ہوتا
وہ گل بھی سوچتا ہوگا کہ کھلتا ہے جو ٹہنی پر
جو سجتا زلف تیری پر تو وہ بھی سرخرو ہوتا
تجھے خود بھی نہیں معلوم کہ کتنا چاہتا ہے شانؔ
اس کی بس یہ خواہش ہے کہ ہر جا تو ہی تو ہوتا