اک بے کلی سی ہر دم ہونٹوں کی بام پر ہے
خاموش امنگوں کو نہ جانے کس کا ڈر ہے
اس میں سمٹ گئی ہیں دنیا جہاں کی باتیں
یہ اشک کا قطرہ ہے یا کوئی سمندر ہے
میں جانتا ہوں پل پل تم بھی تڑپتے ہو گے
غم ہے جو میرے ہمراہ ۔ تیرا بھی ہمسفر ہے
جانا کہاں ہے جاناں اب اس گلی سے مجھکو
اب آپکے ہی در پر ہر سوچ کی سحر ہے
کیا پوچھنا کسی سے تعبیر گاہ کی بابت
ہے آس تیری گر تو ہر خواب معتبر ہے
چاہے تو مسل ڈالے چاہے تو عمر بخشے
اب حسن کے ہاتھوں میں پھولوں کا مقدر ہے