بات دن کی نہیں، مجھے رات سے ڈر لگتا ہے
گھر کچا ہے میرا، مجھے برسات سے ڈر لگتا ہے
اس نے تحفے میں دیے مجھ کو خون کے آنسو
زندگی اب تیری سوغات سے ڈر لگتا ہے
چھوڑو پیار کی باتیہں، کوئی اور بات کرو
اب تو پیار کی ہر بات سے ڈر لگتا ہے
میری خاطر کہیں وہ بدنام نہ ہو جائیں
اس لئے اُس کی ہر ملاقات سے ڈر لگتا ہے
اپنوں میں رہ کر کچھ ایسے زخم کھائے ہیں
کہ ہمیں اب اپنی زات سے ڈر لگتا ہے