مدّت سے اس کے شہر سے گزرا نہیں ہوں میں
پر ذہن و دل سے آج بھی نکلا نہیں ہوں میں
تیری ہر ایک سانس کو اپنا بنالیا
اور تو یہ کہ رہا ہے کہ تیرا نہیں ہوں میں
بس اک زرا سی بات پہ بدنام کر دیا
سب کو بتا رہا ہے کہ اچھّا نہیں ہوں میں
میں دوسروں کو ڈھالتا ہوں اپنے رنگ میں
ہر گز کسی کے رنگ میں ڈھلتا نہیں ہوں میں
دنیا مجھے سمجھتی عقل مند اس لئے
کہ گفتگو فضول کی کرتا نہیں ہوں میں
قسمت نے مجھ کو زیرو سے ہیرو بنا دیا
ہوں آج بھی میں ویسا ہی بدلا نہیں ہوں میں
انور شباب اسکا کہ کوئی گلاب ہے
افسوس یہ ہے مجھ کو کہ بھنورا نہیں ہوں میں