ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے
اے کاش نگاہوں کو کبھی چار نہ کرتے
اے کہ گرم عشق کا بازار نہ کر تے
اے کاش ترا کود کو خریدار نہ کرتے
اے کاش محبت کا بیوپار نہ کرتے
ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے
کیا جانتے تھے ہم کہ تو مرجائیگی ایک دن
تو خاک ہے مرقد میں اتر جائیگی ایک دن
پردیسی ہے اس دنیا میں گھر جائیگی ایک دن
ورنہ تو محبت کا اظھار نہ کرتے ہم
ہم جانتے تو تم کھبی پیار نہ کرتے
ہم اپنے سمجھنے میں تو کو چالاک ہوئے تھے
نا فھم تھے کب صاحب َ ادراک ہوئے تھے
بے سود کسی خاک پہ ہم خاک ہوئے تھے
اے کاش ترا خود کو پرستار نہ کرتے
ہم جانتے تو تم کھبی پیار نہ کرتے
کیا علم تھا ہم کو کہ ترا حسن ھے فانی
اک خواب کی مانند ہے الفت کی کہانی
ورنہ کبھی ضائع نہیں کرتے یہ جوانی
اور خود کو کبھی بیمار نہ کرتے
ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے
وہ زلف سیاہ وہ لب رخسار تمہارے
ہم جن کے سبب ہوگئے بیمار تمہارے
او ر ناز اٹھانے لگے بیکار تمہارے
اس دام میں ہم کو گرفتار نہ کرتے
ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے
کیا علم تھا ہے خواب بہت جلد بکھرنا
اے حسن کی دیوی تجھے اک روز ہے مرنا
نادان تھے کم فہم تھے اے دوست وگرنہ
مرجاتے مگر ہم ترا دیدار نہ کرتے
ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے
حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمتہ اللہ علیہ ہندوستان گئے تو وہاں ایک پاگل ہندو نوجوان کو دیکھا کہ وہ یہ مصرع پڑ ھتا " ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے"
حضرت مولانا نے پتا کروایا کیا بات ہو ئی ہے تو پتا چلا کہ یہ نوجوان کسی لڑکی پر عاشق ہوگیا ۔پھر اس شادی بھی ہو گئی ،مگر کچھ ہی روز بعد اس لڑکی کا انتقال ہوگیا جس کے غم میں وہ ہندو لڑکا پاگل اور دیوانہ ہو گیا اور گلی کوچوں میں یہ مصرع گاتا پھرتا ہے
ہم جانتے تو تم سےکبھی پیار نہ کرتے
الحمداللہ حضرت والا کے حکم سے بندے نے اس مصرعہ کو نظم کے پیرائے میں ڈھال دیا