ہم جبر محبت سے گریزاں سے مچل کر
زلفوں کی طرح تیری پریشاں سے نکل کر
اے عشق تری راہ میں ہم چل تو رہے ہیں
کچھ مرحلے ایسے ہیں جو آساں سے ہی حل کر
جلووں کے ترے ہم جو تماشائی رہے ہیں
سو جلوے ہوں نظروں میں تو حیراں عمل کر
اب تک میں وہیں پر ہوں جہاں سے میں چلی ہوں
آواز کی رفتار سے کیوں بھاگ ہے ڈھل کر
رکھتے ہو اگر آنکھ تو باہر سے نہ دیکھو
دیکھو مجھے اندر سے بہت سوچ سنبھل کر
اس طرح تجھے عشق کیا ہے کہ یہ دنیا
ہم ہجر کے رستوں کی ہوا دیکھ پگھل کر
انکار بھی کرنے کا بہانہ نہیں ملتا
اقرار بھی کرنے کا مزا دیکھ بدل کر
وشمہ نہیں پھر بھی مجھے اندیشہ ہے خود سے
ہستی مری کچھ شعبدۂ گل سے نکل کر