ہم جو بھی ہیں حبیب تمہارے مگر کیوں ہیں یہ راز نہ پوچھ
تیری تجھ سے زندگی گذرے تو مجھ سے میرا مجاز نہ پوچھ
پاؤں پر بھی بے اختیاری تیری گلیوں کی منزلیں تھی کیسی
چاروں پہر کی پیش قدمی ہر گذری تھی کیسے رات نہ پوچھ
ناہموار تھی راہیں یا ہم اپنے ارادوں سے مُکر چکے تھے
وقت کیسے بیتا بھول جا گذرے لمحوں کے پھرُ سراغ نہ پوچھ
حسرتوں کا تغافل ہی ہے کہ زندگی کو کسی کے قابل نہ سمجھا
جب اجڑے تو انتہا تھی اُن اشکوں کا اب آغاز نہ پوچھ
تیری اداؤں کے آنچل سے لپٹ کر کوئی رو بیٹھا تو تمہیں کیا
ہم سنتوش ہو کے پرجوش رہے تیری بے رُخی کی بات نہ پوچھ