ملنے کیلیے تجھ سے آس نہیں رکھتے
ہم دل کے تڑپنے کا احساس نہیں رکھتے
وہ کیسی تھی مجبوری کہ آنسو بھی ناں آ پائے
ہے آنکھ میں بند سمندر ہم پیاس نہیں رکھتے
اب کیسے کریں خواہش کہ ملنا بھی ہے ناممکن
ہم خود سے الجھنے کے اسباب نہیں رکھتے
جب سے تیرا چہرہ ماضی کا بنا حصہ
ہم اپنی نگاہوں کو بے تاب نہیں رکھتے
اس شام بچھڑنے کا لمحہ تھا بڑا مشکل
اب تیرے جنوں کا وہ خواب نہیں رکھتے