ہم خوشیوں کے سوداگر ہیں ہمیں غم کے یہ انعام نہ دو
کسی دریا میں بہا دو ہمیں پر بے وفائی کا الزام نہ دو
ہم چاہت میں جینا سیکھے ہیں ہمیں چاہت ہی میں مرنا ہے
ہمیں نفرت کے زہر سے بھرے یہ کڑوے کسیلے جام نہ دو
میرا ساتھ اگر گوارہ نہیں پر اتنا احسان تو کرو پیارے
ہمیں چوکھٹ پہ پڑا رہنے دو ہمیں ہجر کی کالی شام نہ دو
ہم بھول گئے ہیں غم سارے ہم رہنے لگے ہیں پھر خوش خوش
ہمیں بھولے ہوئے لوگوں کے اے قاصد یہ مطلبی پیغام نہ دو